علم کی فضیلت، اہمیت، اور ضرورت
علم کی فضیلت، اہمیت، اور ضرورت سے کسی بھی باشعور انسان کو انکار نہیں ہے۔ علم کے معنی ہیں کسی بھی چیز کے بارے میں جاننا اور آگاہ ہونا ہے۔
علم سے مراد کسی بھی چیز کے بارے میں جاننا اور اس کے بارے میں شعور حاصل کرنا علم کہلاتا ہے۔
وہ تمام معلومات، سمجھ بوجھ اور مہارتیں ہیں جو آپ کو تجربے یا تعلیم سے حاصل ہوتی ہیں علم کہلاتی ہیں۔
علم کی فضیلت، اہمیت، اور ضرورت کیا ہے؟ یہ کیوں ضروری ہے؟ اور اس کے فائدے اور مقاصد کیا ہیں ؟ تو ان سوالوں کے جوابات درج ذیل ہیں۔
علم کی پہچان:
علم مینارہِ نور ہے، روشنی ہے، معلومات کا سمندر ہے، ایک روشن جہان ہے، انسان اور حیوان کی شناخت کرواتا ہے۔ یہ انسان کو زندگی گزارنے کا طریقہ اور سلیقہ سیکھاتاہے۔
زندہ رہنے اور دوسروں کو اپنی پہچان کروانے کے لیے اسے حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر فرض ہے اور بہت ضروری ہے۔ علم انسانیت کی معراج ہے۔
حوالہ محدث فورم
انسان کو جو سب سے پہلے عطاء کیا گیا وہ چیزوں کا علم ہے۔ پڑھنے، لکھنے اورچیزوں کے بارے میں جاننے، جانچنے اور سمجھنے کو علم کہتے ہیں۔ چیزوں کو استعمال کرنے کے طریقوں کو سیکھنے، سیکھانے اور ان کے بارے میں معلومات رکھنے کو ہی علم کہتے ہیں۔
علم انسانیت کا وہ وصف ہے جو انسان کو دوسری مخلوقات سے الگ کرتا ہے اور فرش سے عرش تک پہنچاتا ہے۔
علم جنت کا راستہ دکھاتا ہے، جہنم سے دور کرتا ہے۔ یہ انسان کو اندھیروں کی وادیوں سے نکال کر روشنی کی دنیا میں داخل کرتاہے۔
علم تنہائی میں مونس، سفر میں رفیق، خلوت میں ساتھی ہے۔ علم وہ واحد نور ہے جس سے گمراہی اور جہالت دور ہوجاتی ہے۔
علم ایک ایسا خزانہ ہے جس کی چوری کا کوئی خوف نہیں ہوتا اور استعمال سے کم نہیں بلکہ بڑھتا ہوتا۔
”حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا”
”مہد سے لہد تک علم کی تلاش میں لگے رہو”۔
علم حاصل کرنا مرد اور عورت دونوں پر فرض ہے اور یہ ان کا بنیادی اور اولین حق بھی ہے۔ اللہ تعالٰی نے انسان کو کتاب کا علم عطاء فرمایا اور اسی علم ہی کی وجہ سے فرشتوں نے اللہ تعالٰی کے حکم سے انسان کو سجدہ کیا اور وہ تمام مخلوقات میں معتبر ٹھہرایا گیا۔
اللہ تعالٰی نے انبیاء کرام علیہ سلام کو وحی کے ذریعے علم عطاء فرمایا اور اسی کے ذریعے سے ہی انسان کو اپنی پہچان اور شناخت کروائی۔ پہلی وحی اور قرآن پاک کی پہلی آیات بھی علم ہی کے بارے میں نازل ہوئیں ۔
قرآن مجید کی سورۃ ”علق” میں ارشادِ باری تعالٰی ہے۔
آیت 1 ”ترجم: (اے محمدﷺ) اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھو جس نے (عالم کو) پیدا کیا”۔
آیت 3 ”ترجمہ: پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے”۔
آیت 4 ”ترجمہ: جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا”۔
آیت 5 ”ترجمہ: اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جس کا اس کو علم نہ تھا”۔
تمام امتِ مسلِمہ کو قرآن و حدیث کا علم عطاء کیا گیا ہے جو تمام مسلمانوں کو جہنم کی گھاٹیوں سے نکال کر جنت کی وادیوں میں لے جائے گا۔
یہ علم ہی ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتا ہے اور اس سے انسان کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے جو کہ انسان کے لیے بہت بڑی کامیابی ہے۔
علم انسان کو تکبر اور غرور سے بچاتا ہے اور اس میں نفاست، عاجزی، حلیمی، نرمی اور سادگی پیدا کرتا ہے۔ حوالہ کتاب وسنت
انسان پیدا ہونے سے لیکر موت تک سیکھنے کے مراحل سے گزرتا ہے۔ وہ ہر لمحہ، ہر پل کچھ نہ کچھ سیکھتا ہے۔ عمر کے ہر دور میں انسان زندگی سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔
علم صرف پڑھنے لکھنے کا نام ہی نہیں ہے بلکہ زندگی کے تمام شعبوں سے واقفیت حاصل کرنا اور ان میں مہارت حاصل کرنا ہی علم کہلاتا ہے۔
علم انسان کی ذہنی صلاحیتوں کو ابھارتا اور تیز کرتا ہے۔ یہ انسان کو مصائب و مشکلات اور الجھنوں سے نکالتا ہے اورمسائل حل کرنے میں مدد کرتا ہے۔ یہ انسان میں صبر و تحمل اور فہم و فراست پیدا کرتا ہے جس سے وہ پر سکون رہ کر بڑے بڑے فیصلے کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔
علم کی اقسام:
علم کی بہت سی اقسام ہیں مثلاً:
- مذہب کا علم۔
- سائنس اور ٹیکنالوجی کا علم۔
- فنون لطیفہ اور مختلف فنون کا علم۔
- اخلاقیات، ثقافت، معاشیات کا علم۔
- علمِ ریاضی۔
- تہذیب و تمدن۔
- ملکی و غیر ملکی قوانین کا علم۔
- صحت، تعلیم و تربیت۔
- علاج معالجہ۔
- معاشرت۔
اور زندگی کے بے شمار عوامل میں پیش آنے والے معاملات کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے کے لیے جس چیز کی اسے ضرورت ہوتی ہے اسے علم کہتے ہیں۔
علم ایک روشن چراغ ہے جو پھیلانے سے بڑھتا ہے۔ اس کی کرنیں دور دور تک جا کر روشنی پھیلاتی ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ علم والا اور بغیر علم والا برابر نہیں ہو سکتے۔
علم والے کے پاس ایسی روشنی ہے جس سے وہ کائنات اور اس میں موجود چیزوں کے بارے میں بخوبی جان سکتا ہے، جبکہ بغیر علم والا نہیں جان سکتا۔
اس لیے علم والے کو معاشرے میں ہمیشہ عزت و قدر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ جبکہ ان پڑھ اور جاہل انسان کی معاشرے میں کوئی عزت و اہمیت نہیں ہوتی۔
علم انسانیت کی معراجِ ہے:
علم ہی کی وجہ سے انسان اور جانور میں فرق کیا جاتا ہے۔علم کے ذریعے ہی ہم اپنے حقوق اور فرائض کو صحیح طور پر جان سکتے ہیں اور اپنے معاشروں میں امن و انصاف قائم کرسکتے ہیں۔
علم مینارہ نور ہے:
علم جہالت کے اندھیروں کو دور کر کے روشنی کی کرنوں کو بکھیر دیتا ہے اور انسان کی شخصیت اور سوچ میں نکھار پیدا کرتا ہے۔ علم سے نئی سوچ اور ترجیحات پیدا ہوتی ہیں اور ترقی کی نئی راہیں کھلتی ہیں۔
علم ہی کی وجہ سے آج کے انسان نے سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی میں بے تحاشہ ترقی کی ہے کہ آسمانوں سے آگے نکل گیا ہے۔ علم ہی کے ذریعے ایسے قوانین بنائے اور نافذ کیے جاتے ہیں جس سے معاشروں میں انصاف اور امن قائم کیا جاتا ہے جس کے باعث خوشحالی اور ترقی وقوع پزیر ہوتی ہے۔
آج کا انسان علم کے ذریعے اس قدر ترقی کر چکا ہے کہ وہ کائنات کے کناروں سے باہر نکلنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ بہت سی ایجادات کر کے اپنی زندگی میں آسانیاں پیدا کر چکا ہے اور مزید آسان بنانے کے لیے مزید ایجادات کر رہاہے۔
علم حاصل کرنا کسی بھی قوم، رنگ، نسل، زبان، علاقہ یا مذہب سے تعلق رکھنے والے ہر ایک انسان کا بنیادی حق ہے۔ علم ایک ایسا نور ہے جو دل و دماغ کو جِلا بخشتا ہے اور انسان میں شعور بیدار کرتا ہے۔
یہ اسے اچھے اور برے، صحیح اور غلط میں فرق کرنا سکھاتا ہے۔ انسانوں اور جانوروں میں فرق علم کی وجہ سے ہی ہے۔
علم ہی ہے جس نے انسان کو تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ معتبر بنایا ہے۔ علم حاصل کرنا معاشرے کے تمام افراد کا پیدائشی حق اور فرض ہے۔ یہ شعور کو بیدار کرتا ہے اور شخصیت کو نکھارتا ہے۔
یہ قومی، لسانی، نسلی، معاشی، معاشرتی اور سماجی اختلافات کو ختم کر کے معاشرے کے تمام افراد کے درمیان بھائی چارہ اور مساوات قائم کرتا ہے جس سے ایک تعلیم یافتہ معاشرہ پروان چڑھتا ہے۔ علم زندگی کا وہ معیار متین کرتا ہے جو معاشروں میں توازن کو برقرار رکھتا اور زندگی کو آسان بناتا ہے۔
علم ہی کے ذریعے سےاس نے بہت سی مشکلات و مصائب، بیماریوں اور مسائل پر قابو پا لیا ہے۔ انسان زندگی کے ہر شعبے میں بہت ترقی کر چکا ہے۔ تمام ایجادات اور تخلیقات اسی علم ہی کی بدولت ہیں کہ انسان کائنات کے کناروں سے آگے نکل گیا ہے۔ اسی علم کی وجہ سے ہی ہم اللہ تعالیٰ کو پہچانتے ہیں اور صرف اسی کی ہی عبادت کرتے ہیں۔
علم ایک قوت ہے:
حقیقتاً علم ایک ایسی قوت ہے جو دنیا کی تمام تر قوتوں سے افضل ہے اور جس کے زوال کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ قدرت کے سربستہ رازوں کا انکشاف علم ہی کی بدولت ہوا۔
علم کی وجہ سے دنیا کی تمام وسعتیں آج کے انسان کے سامنے سمٹ گئیں ہیں۔ دوریاں قربتوں میں بدل گئی ہیں۔ انسان ہوا پر قابو پاچکا ہے اور فضاؤں میں پرواز کرسکتا ہے۔
آج کا انسان خلاءکی وسعتوں پر حاوی ہے ۔علم ہی کی بدولت وہ مظاہرِ قدرت جنہیں وہ پو جتا تھا آج وہ اس کی خاکِ راہ ہیں ۔علم ہی کا کرشمہ ہے جس کی وجہ سے آج ہمیں گھر بیٹھے پوری دنیا کے حالات و واقعات سے واقفیت اور معلومات حاصل ہوتی ہیں۔
اسلام میں ماحولیاتی تحفظ کی اہمیت
دنیا کی تمام تر ترقی کا انحصار علم پر ہی ہے:
علم ہی دراصل انسان کو انسانی صلاحیتوں سے نوازتا ہے اور انسانیت کا درس دیتا ہے جس سے انسان نیکی اور بدی میں فرق کرسکتا ہے۔ علم ہی وہ ذریعہ ہے جس کی وجہ سے ایک انسان دوسرے انسانوں پر سبقت لے جاتا ہے۔ علم ایسا نور ہے جس سے جہالت اور گمراہی کی تاریکیاں دورہوتی ہیں۔
علم کی بدولت انسان کی چشمِ بصیرت روشن ہوجاتی ہے جس کی بدولت اس میں نیکی و بدی اور حق باطل کا شعور پیدا ہوتا ہے ۔ علم سے انسان کے اطوار شائستہ اور اخلاق پاکیزہ بن جاتے ہیں۔
علم کی اہمیت اور افادیت سے کسی کو انکار نہیں۔ علم انسان کےدل و دماغ کو جہالت کے گہرے اندھیروں اور گہرائیوں سے نکال کر اسے اس مقام تک پہنچا دیتا ہے جہاں حسد و بغض، کینہ، دشمنی، ظلم اور لالچ کا گزر نہیں ہوتا۔ انسان کو نیکی، ایثار، اخوت، خلوص، محبت، رحمدلی اور دوستی جیسی عظیم صفات عطا کرتا ہے۔
اسے حاصل کرنا ہر انسان کا پیدائشی حق ہے۔ جو اس سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا۔ علم کی وجہ سے ہی انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ ملا۔
دنیا کے تمام مذاہب میں علم کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اسلام بھی علم کو خاص اہمیت دیتا ہے تاکہ انسان اپنے آپ کو اور خدائے واحد کو پہچان سکے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو تمام تخلیقات پر فوقیت دی اورایک جگہ شیخ سعدیؒ نے فرمایا ”بچہ جو تعلیم و تربیت اپنے ابتدائی چند برسوں میں حاصل کرتا ہے دراصل وہی اس کی زندگی کا قیمتی اثاثہ ہوتی ہے۔” تمام چیزوں کو اس کے ماتحت کیا کیوں کہ وہ علم ہی کی وجہ سے ان سب سے اعلیٰ و برتر ہے۔
تعلیم کے حصول کی اہمیت و ضرورت:
علم کا دوسرا نام تعلیم ہے جس کا اوّلین مقصد انسان کی ذہنی اور معاشی نشوونما کرنا ہے۔ علم کا مطلب صرف نصابی تعلیم ہی نہیں بلکہ کردار اور اخلاق کی تربیت کرنا بھی اس کا ایک بنیادی جزو ہے۔
علم معاشرے کو بہترین اور باشعور شہری دیتا ہے جو ایک بہترین قوم بنتے ہیں۔ تعلیم و تعلم ہر قوم کی بقاء اور ترقی کی بنیاد ہوتی ہے جو قوم کو اخلاقی، معاشی، معاشرتی، سماجی اور سیاسی استحکام، قابلیت اور ترقی دیتی ہے۔
تعلیم حاصل کرنے کا مقصد صرف اسکول، کالج اور یونیورسٹی سے ڈگریز لینا ہی نہیں، بلکہ اس کے ساتھ تہذیب و اخلاق سیکھنا بھی ہے۔ تاکہ انسان اپنی معاشرتی روایات اور اقدار کا پاس رکھ سکے۔ یہ انسان کے کردار کو سنوارتی ہے۔
یہ ایسی دولت ہے جو کبھی ضائع نہیں ہوتی اور نہ ہی اسے کوئی چراء سکتا ہے۔ علم بانٹنے سے کم نہیں ہوتا بلکہ بڑھتا ہے۔ تعلیم ایک شخص کو ہی نہیں بلکہ ایک خاندان اور ایک معاشرے کو بہترین اور خوبصورت سانچے میں ڈھالتی ہے۔
ملک کی ”ترقی” اس کے تعلیم یافتہ افرادکی ذہانت اور سوچ پر ہی مبنی ہوتی ہے۔ فردجتنا پڑھا لکھا ہوگا وہ اتنے ہی اچھے طریقے سے بہتر سے بہتر ذرائع کو استعمال میں لاتے ہوئے ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے کام کرےگا۔
کسی بھی ملک کا معاشرہ جتنا زیادہ پڑھا لکھا ہوگا وہ ملک کی ترقی کے لیے اتنا ہی زیادہ کام کرے گا۔ ہر ملک اپنے تعلیم یافتہ افراد کو آگے بڑھنے کے بہتر مواقع فراہم کرتا ہے تاکہ وہ اپنی قابلیت اور صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
مغرب کی کامیابی تعلیم کی بدولت ہی ہے اور مشرق کے زوال کی وجہ تعلیم کا نہ ہونا ہے۔ دنیا کے وہ ممالک جن کی معیشت تباہ ہوگئی ہے اور وہ جو دنیا کی بڑی طاقتوں پر انحصار کرتے ہیں ان کا بجٹ دوسرے شعبوں میں تو اربوں کا ہے، لیکن تعلیمی بجٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔
جس کی وجہ سے غریب عوام کے لیے تعلیم حاصل کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہوتا جارہا ہے۔ جب تک یہ ممالک تعلیم کی اہمیت کو نہیں سمجھیں گے اس وقت تک مغرب کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔
اگر ہمیں اپنے معاشرے میں تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے تو اس کے لیے اساتذہ کا مکمل تربیت یافتہ ہونا بھی بہت ضروری ہے، جو بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مدد فراہم کرسکیں۔
اساتذہ کرام ساتھ ساتھ طلبہ و طالبات کی مخفی صلاحیتوں کو بھی بیدار کریں اور انہیں علم و آگہی نیز فکر و نظر کی دولت سے بھی آگاہ کریں۔ جو اساتذہ اپنی اس ذمے داری کو بہتر طریقے سے پورا کرتے ہیں اُن کے شاگرد آخری سانس تک اُن کے احسان مند رہتے ہیں۔
حکومت کا فرض ہے کہ وہ اپنے عوام کے لیے ایسے مواقع فراہم کرے کہ غریب عوام بھی آسانی سے تعلیم حاصل کر سکیں۔ جب تک تعلیم کا معیار اچھا نہیں ہوگا اُس وقت تک معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔
تعلیم کی اہمیت جانے بغیر انسان ہمیشہ پستی میں ہی رہے گا۔ اس لیے علم کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھتے ہوئے اس کے حصول کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔ علم ایک خزانہ ہے جس نے اسے حاصل کیا وہ کامیاب ہوا اور جو اس سے محروم رہا وہ ناکام ہوا۔